اس طرح عہد تمنا کو گزارے جائیے
ان کو خاموشی کے لہجے میں پکارے جائیے
عشق کا منصب نہیں آوازۂ لفظ و بیاں
آنکھوں ہی آنکھوں میں ہر اک شکوہ گزارے جائیے
دیکھیے رسوا نہ ہو جائے کہیں رسم جنوں
اپنے دیوانے کو اک پتھر تو مارے جائیے
آئنہ پہ جو گزرنا ہو گزر جائے مگر
آپ یوں ہی زلف برہم کو سنوارے جائیے
جذبۂ دل کا تقاضا ہے کہ بازی جیت لوں
احتیاط عشق کہتی ہے کہ ہارے جائیے
ہو سکے تو دل کی حالت خود ہی آ کر دیکھیے
غیر کی سنئے نہ کہنے پر ہمارے جائیے
کچھ تو لطف لمس آغوش تلاطم چاہیے
تا کجا اخگرؔ کنارے ہی کنارے جائیے

غزل
اس طرح عہد تمنا کو گزارے جائیے
حنیف اخگر