اس طرح آنکھوں کو نم دل پر اثر کرتے ہوئے
جا رہا ہے کون نیزوں پر سفر کرتے ہوئے
زندگی فاقوں کے سائے میں بسر کرتے ہوئے
جی رہا ہوں خون دل خون جگر کرتے ہوئے
لکھ رہا ہوں نام بچوں کے غموں کی جائداد
ان کی صبح زندگی کو دوپہر کرتے ہوئے
اتنے وحشت ناک منظر پتلیوں میں بس گئے
خواب بھی ڈرنے لگے آنکھوں میں گھر کرتے ہوئے
سینۂ موج رواں کو آبلوں سے بھر دیا
پیاس کی شدت نے پانی پر اثر کرتے ہوئے
وقت کی رفتار سے بھی تیز چلنا ہے مجھے
جا رہا ہوں اب ہوا کو ہم سفر کرتے ہوئے
جانے کتنی ٹھوکریں کھائیں ہیں میں نے اے رضاؔ
اعتدال زندگی کو تیز تر کرتے ہوئے
غزل
اس طرح آنکھوں کو نم دل پر اثر کرتے ہوئے
رضا مورانوی