اس طرف سے اس طرف تک خشک و تر پانی میں ہے
اب سمندر سے سمندر تک نظر پانی میں ہے
میری آنکھوں میں ادھر منظر ہے اپنی موت کا
اور کوئی ڈوبنے والا ادھر پانی میں ہے
جانے کب میرے سمندر کو کوئی ساحل ملے
کب سے میرا جسم سرگرم سفر پانی میں ہے
کشتی انفاس زیر آب بھی ہے شعلہ بار
تہہ بہ تہہ جیسے کوئی موج شرر پانی میں ہے
جل گیا ہوتا شعاع مہر سے یہ شہر بھی
خیریت گزری کہ خوابوں کا نگر پانی میں ہے
اس بلندی سے لگاؤں کس طرف اب میں چھلانگ
ایک در ہے دشت میں تو ایک در پانی میں ہے
ہو چکے ہیں کب کے چکنا چور آئینے سبھی
یہ تو محسنؔ اپنا ہی عکس نظر پانی میں ہے
غزل
اس طرف سے اس طرف تک خشک و تر پانی میں ہے
محسن زیدی