EN हिंदी
اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے | شیح شیری
is taraf se guzre the qafile bahaaron ke

غزل

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے

ساحر لدھیانوی

;

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں زخم رہ گزاروں کے

خلوتوں کے شیدائی خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو راز پردہ داروں کے

گیسوؤں کی چھاؤں میں دل نواز چہرے ہیں
یا حسیں دھندلکوں میں پھول ہیں بہاروں کے

پہلے ہنس کے ملتے ہیں پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں لوگ اجنبی دیاروں کے

تم نے صرف چاہا ہے ہم نے چھو کے دیکھے ہیں
پیرہن گھٹاؤں کے جسم برق پاروں کے

شغل مے پرستی گو جشن نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے