اس تکلف سے نہ پوشاک بدن گیر میں آ
خواب کی طرح کبھی خواب کی تعبیر میں آ
میں بھی اے سرخئ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو پیکر تصویر میں آ
اس کے حلقے میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لیے
اب تو اے حرف طلب معرض تقریر میں آ
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موج خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ
غزل
اس تکلف سے نہ پوشاک بدن گیر میں آ
عرفانؔ صدیقی