اس شعلہ خو کی طرح بگڑتا نہیں کوئی
تیزی سے اتنی آگ پکڑتا نہیں کوئی
وہ چہرہ تو چمن ہے مگر سانحہ یہ ہے
اس شاخ لب سے پھول ہی جھڑتا نہیں کوئی
خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
لوگوں کا کیا ہے آج ملے کل بچھڑ گئے
غم دو گھڑی بھی مجھ سے بچھڑتا نہیں کوئی
مجبورئ حیات ہے ورنہ زمین پر
خوش ہو کے ایڑیاں تو رگڑتا نہیں کوئی
جس طرح یاد چھوڑ گیا میرے دل میں تو
اس عمدگی سے لعل بھی جڑتا نہیں کوئی
کہتے ہیں لوگ دیکھ کے اس حال میں مجھے
اپنے خلاف جنگ تو لڑتا نہیں کوئی
روحیؔ تجھے بھی لاگ رہی ہے زمانے سے
بے وجہ تو کسی سے بگڑتا نہیں کوئی
غزل
اس شعلہ خو کی طرح بگڑتا نہیں کوئی
روحی کنجاہی