اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
اس خاک میں کہیں کہیں سونے کا رنگ ہے
پائیں چمن ہے خود رو درختوں کا جھنڈ سا
محراب در پہ اس کے نہ ہونے کا رنگ ہے
طوفان ابر و باد نہاں ساحلوں پہ ہے
دریا کی خامشی میں ڈبونے کا رنگ ہے
اس عہد سے وفا کا صلہ مرگ رائیگاں
اس کی فضا میں ہر گھڑی کھونے کا رنگ ہے
ہے سر زمین شور کہ اک چادر صفا
کیسا عجیب مردہ بچھونے کا رنگ ہے
سرخی ہے جو گلاب سی آنکھوں میں اے منیرؔ
خار بہار دل میں چبھونے کا رنگ ہے
غزل
اس شہر کے یہیں کہیں ہونے کا رنگ ہے
منیر نیازی