اس شہر طلسمات کا دستور عجب ہے
ہر شخص فسردہ ہے مگر خندہ بہ لب ہے
جیسے گھنے جنگل میں کوئی آگ لگا دے
اس شہر میں سورج کا نکلنا بھی غضب ہے
بے کار ہے بے معنی ہے اخبار کی سرخی
لکھا ہے جو دیوار پہ وہ غور طلب ہے
کیا مجھ کو اٹھائے گا کوئی میری جگہ سے
پتھر ہوں جو تعمیر کی بنیاد کا رب ہے
جو آنکھ کی پتلی میں رہا نور کی صورت
وہ شخص مرے گھر کے اندھیرے کا سبب ہے
غزل
اس شہر طلسمات کا دستور عجب ہے
خالد صدیقی