EN हिंदी
اس شہر نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے | شیح شیری
is shahr-e-nigaran ki kuchh baat nirali hai

غزل

اس شہر نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے

دواکر راہی

;

اس شہر نگاراں کی کچھ بات نرالی ہے
ہر ہاتھ میں دولت ہے ہر آنکھ سوالی ہے

شاید غم دوراں کا مارا کوئی آ جائے
اس واسطے ساغر میں تھوڑی سی بچا لی ہے

ہم لوگوں سے یہ دنیا بدلی نہ گئی لیکن
ہم نے نئی دنیا کی بنیاد تو ڈالی ہے

اس آنکھ سے تم خود کو کس طرح چھپاؤگے
جو آنکھ پس پردہ بھی دیکھنے والی ہے

جب غور سے دیکھی ہے تصویر تری میں نے
محسوس ہوا جیسے اب بولنے والی ہے

دنیا جسے کہتی ہے بے راہروی راہیؔ
جینے کے لیے ہم نے وہ راہ نکالی ہے