EN हिंदी
اس سے پہلے کہ کسی گھاٹ اتارے جاتے | شیح شیری
is se pahle ki kisi ghaT utare jate

غزل

اس سے پہلے کہ کسی گھاٹ اتارے جاتے

صفدر سلیم سیال

;

اس سے پہلے کہ کسی گھاٹ اتارے جاتے
ہم ہی بیتاب تھے ہم مفت میں مارے جاتے

حد ادراک سے آگے تھی ترے قرب کی شام
ڈھونڈنے تجھ کو کہاں چاند ستارے جاتے

تو نے خود اپنی محبت کا بھرم کھول دیا
ورنہ ہم پاس مروت میں ہی مارے جاتے

تجھ سے منسوب ہوئے ہیں تو یہ حسرت ہی رہی
ہم کبھی اپنے حوالے سے پکارے جاتے

سخت پہرہ تھا ترے حاشیہ برداروں کا
ہم وہاں کس کی سفارش کے سہارے جاتے

تو نے خود حلقہ امواج سے منہ موڑ لیا
دور تک ورنہ ترے ساتھ کنارے جاتے

مشعلیں غم کی فروزاں تھیں ہر اک گھر میں سلیمؔ
کس کی دہلیز پہ ہم درد کے مارے جاتے