اس سے پہلے کہ ہوا مجھ کو اڑا لے جائے
اپنی زلفوں میں کوئی آ کے سجا لے جائے
جس کو اس عہد میں جینے کا ہنر آتا ہو
اس سے کہہ دو کہ مری عمر لگا لے جائے
چاندنی کھڑکی سے کمرے میں اتر آتی ہے
کوئی تصویر نہ البم سے چرا لے جائے
حوصلہ دیو سے لڑنے کا کسی میں بھی نہیں
چاہتے سب ہیں پری آ کے جگا لے جائے
اپنی خاطر نہ سہی کچھ تو بچا کر رکھو
لوٹنے کوئی اگر آئے تو کیا لے جائے
ابن آدم نہ کہو اس کو فرشتہ سمجھو
خود کو جو دانۂ گندم سے بچا لے جائے

غزل
اس سے پہلے کہ ہوا مجھ کو اڑا لے جائے
اصغر مہدی ہوش