EN हिंदी
اس رنگ میں اپنے دل ناداں سے گلہ ہے | شیح شیری
is rang mein apne dil-e-nadan se gila hai

غزل

اس رنگ میں اپنے دل ناداں سے گلہ ہے

صبا اکبرآبادی

;

اس رنگ میں اپنے دل ناداں سے گلہ ہے
جیسے ہمیں کل عالم امکاں سے گلہ ہے

کس آنکھ نے سمجھا مری بے بال و پری سے
جو کچھ مجھے دیوار گلستاں سے گلہ ہے

آ خنجر دل دار مرے دل کو سنا دے
شاید تجھے کچھ میری رگ جاں سے گلہ ہے

چھوڑا ہے کہاں ساتھ مرے دست جنوں کا
کم مائیگیٔ دامن امکاں سے گلہ ہے

کہتے ہیں بس اتنی ہی تری تاب یقیں تھی
ہے کفر سے شکوہ مرے ایماں سے گلہ ہے

اک لفظ تسلی مرے حصے میں نہ آیا
اے ذوق سماعت لب جاناں سے گلہ ہے

مل جاتی ہے جاں قرض مگر مے نہیں ملتی
بیگانگیٔ بادہ فروشاں سے گلہ ہے

ایمان کا پندار لئے پھرتا ہوں ہر سو!
یہ بھی اسی غارت گر ایماں سے گلہ ہے

کیسے دل تنہا نے بنائے ہیں مخاطب
دیواروں سے شکوہ در زنداں سے گلہ ہے

کہتے ہیں صباؔ چاندنی گلشن کی نہ دیکھے
اس شخص کو ارباب گلستاں سے گلہ ہے