EN हिंदी
اس قدر سچائی سے بیزار دنیا ہو گئی | شیح شیری
is qadar sachchai se bezar duniya ho gai

غزل

اس قدر سچائی سے بیزار دنیا ہو گئی

مجاہد فراز

;

اس قدر سچائی سے بیزار دنیا ہو گئی
زد پہ گردن ہے مری، تلوار دنیا ہو گئی

اس کے دل میں نیم گولی، شہد باتوں میں رکھے
پوچھتے کیا ہو میاں! مکار دنیا ہو گئی

بے حیائی بے وفائی بے یقینی بے حسی
کیسے کیسے خنجروں کی دھار دنیا ہو گئی

مصلحت نے کس قدر تبدیل اس کو کر دیا
غیر میں ہوں ان دنوں غم خوار دنیا ہو گئی

کیا سمجھتے ہو یقیں کر لے گی تم کچھ بھی کہو
سوچ کر دینا بیاں ہشیار دنیا ہو گئی

کیا صحافی کیا مؤرخ کیسے عالم کیا ادیب
دیکھتے ہی دیکھتے بازار دنیا ہو گئی

ہار کر جس نے کیا ہے اس سے سمجھوتا فرازؔ
ہاں اسی کے واسطے ہموار دنیا ہو گئی