EN हिंदी
اس قدر غور سے دیکھا ہے سراپا اس کا | شیح شیری
is qadar ghaur se dekha hai sarapa us ka

غزل

اس قدر غور سے دیکھا ہے سراپا اس کا

سید کاشف رضا

;

اس قدر غور سے دیکھا ہے سراپا اس کا
یاد آتا ہی نہیں اب مجھے چہرہ اس کا

اس پہ بس ایسے ہی گھبرائی ہوئی پھرتی تھی
آنکھ سے حسن سمٹتا ہی نہیں تھا اس کا

سطح احساس پہ ٹھہرا نہیں سکتے جس کو
ایک اک خط میں توازن ہے کچھ ایسا اس کا

اپنے ہاتھوں سے کمی مجھ پہ نہ رکھی اس نے
میری تو لوح مقدر بھی ہے لکھا اس کا

میں نے ساحل پہ بچھا دی ہے صف ماتم ہجر
لہر کوئی تو مٹا دے گی فسانہ اس کا

وصل اور ہجر کے مابین کھڑا ہوں کاشفؔ
طے نہ ہو پایا تعلق کبھی میرا اس کا