اس نے دل سے نکال رکھا ہے
کس مصیبت میں ڈال رکھا ہے
غور سے دیکھ اس کی آنکھوں میں
روشنی کا کمال رکھا ہے
اس سے ہوتی نہیں ملاقاتیں
اس نے وعدوں پہ ٹال رکھا ہے
میرے آنگن میں کیا خوشی آئے
سامنے غم کا جال رکھا ہے
وہ ہمیں پوچھنے نہیں آتا
ہم نے جس کو سنبھال رکھا ہے
اس کی ہم اس ادا پہ ہیں قربان
رابطہ تو بحال رکھا ہے
یہ کسی طور کھل نہیں پاتا
کس نے کس کا خیال رکھا ہے
اس کدورت سے مجھ کو ملتا ہے
جیسے شیشے میں بال رکھا ہے
جس کا اپنا نہیں جواب کوئی
اس کے آگے سوال رکھا ہے
اے پیامؔ اس کی بھی خبر لے لو
کر کے جس نے نڈھال رکھا ہے

غزل
اس نے دل سے نکال رکھا ہے
اقبال پیام