اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم
تو کیوں ملے سبو سے قدح اور قدح سے ہم
ساقی نہ ہووے پاس تو کب جرعۂ شراب
شیشے کے لے گلو سے قدح اور قدح سے ہم
باقی رہے نہ بادہ تو اس کے عوض میں آب
لے خم کی شست و شو سے قدح اور قدح سے ہم
گردش پہ تیری چشم کی بحثے ہے ہم سے یار
دعوے کی گفتگو سے قدح اور قدح سے ہم
چشم اپنی ٹک دکھا دے اسے تو کہ آوے باز
اس بحث دو بہ دو سے قدح اور قدح سے ہم
بوسہ ترے دہن سے یہ ہنگام مے کشی
لے ہے کس آرزو سے قدح اور قدح سے ہم
پاتے ہیں میکدے میں بقاؔ نعمت شراب
خم سے سب سبو سبو سے قدح اور قدح سے ہم
غزل
اس لب سے رس نہ چوسے قدح اور قدح سے ہم
بقا اللہ بقاؔ