اس کو کوئی غم نہیں ہے جس کا گھر پتھر کا ہے
کیا کرے گا تیز طوفاں بام و در پتھر کا ہے
ایسے انساں سے کبھی امید کیا رکھے کوئی
دیکھنے میں آدمی ہے دل مگر پتھر کا ہے
کون سا ہے شہر جس میں میں بھٹک کر آ گیا
راستے پتھر کے ہیں اور بام و در پتھر کا ہے
آ گئے ہیں آگ کی زد میں ہزاروں جھونپڑے
مجھ کو لیکن ہے تسلی اپنا گھر پتھر کا ہے
اپنے دامن میں چھپائیں کیوں نہیں بچے انہیں
ہیں سبھی ٹوٹے کھلونے پھر بھی ڈر پتھر کا ہے
ان سے امید وفا رکھنا بھی نیرؔ ہے فضول
بے مروت سب کے سب ہیں اور نگر پتھر کا ہے

غزل
اس کو کوئی غم نہیں ہے جس کا گھر پتھر کا ہے
اظہر نیر