EN हिंदी
اس کو غرور عشق نے کیا کیا بنا دیا | شیح شیری
isko ghurur-e-ishq ne kya kya bana diya

غزل

اس کو غرور عشق نے کیا کیا بنا دیا

اشوک ساہنی

;

اس کو غرور عشق نے کیا کیا بنا دیا
پتھر بنا دیا کبھی شیشہ بنا دیا

ہر زخم دل کو ہم نے سجایا ہے اس طرح
جگنو بنا دیا کبھی تارا بنا دیا

میں کس زباں سے شکر خدا کا ادا کروں
جس نے مجھے فراق کا شیدا بنا دیا

اب کس کے در پہ جاؤں میں انصاف کے لئے
منصف نے قاتلوں کو مسیحا بنا دیا

جب بھی ہمیں محاذ سے آواز دی گئی
ہم نے لہو سے ہند کا نقشہ بنا دیا

اس کو خلوص کیسے نظر آئے گا اشوکؔ
دشمن کو انتقام نے اندھا بنا دیا