اس کی جدائی کیسے کمالات کر گئی
وہ خواب بن کے مجھ سے ملاقات کر گئی
دیکھا اسے جو میں نے تو کچھ بھی نہ سن سکا
کیا بات کر رہی تھی وہ کیا بات کر گئی
نادیدہ منزلوں کے لیے راستوں کی دھول
جب کہکشاں بنی تو کرامات کر گئی
راتوں سے چھین کر وہ چراغوں کی روشنی
جب صبح ہو گئی تو اسے رات کر گئی
حد ادب میں یوں تو مرے سل گئے تھے ہونٹ
اک خامشی بھی کتنے سوالات کر گئی
پھر اس کے بعد میری سماعت ہی کھو گئی
کانوں میں میرے جانے وہ کیا بات کر گئی
آنکھوں میں کچھ نمی تو ہمیشہ رہی ہے شادؔ
آنکھوں کی اس نمی کو وہ برسات کر گئی
غزل
اس کی جدائی کیسے کمالات کر گئی
اشرف شاد