EN हिंदी
اس کی بات کا پاؤں نہ سر | شیح شیری
isko baat ka panw na sar

غزل

اس کی بات کا پاؤں نہ سر

محمد علوی

;

اس کی بات کا پاؤں نہ سر
پھر بھی چرچا ہے گھر گھر

چیل نے انڈا چھوڑ دیا
سورج آن گرا چھت پر

اچھا تو شادی کر لی
جا اب بچے پیدا کر

لے یہ پتھر ہاتھ میں لے
مار اسے میرے سر پر

پھوہڑ اس مہنگائی میں
آٹا تو گیلا مت کر

میرے پتے دیکھ ذرا
دو اکے اور اک جوکر

اس کا ٹیڑھا اونٹ نہ دیکھ
اپنا الو سیدھا کر

بیوی اکیلی ڈرتی ہے
شام ہوئی اب چلیے گھر

علویؔ عادلؔ اور ظفرؔ
تینوں کے تینوں اندر