اس کی بات کا پاؤں نہ سر
پھر بھی چرچا ہے گھر گھر
چیل نے انڈا چھوڑ دیا
سورج آن گرا چھت پر
اچھا تو شادی کر لی
جا اب بچے پیدا کر
لے یہ پتھر ہاتھ میں لے
مار اسے میرے سر پر
پھوہڑ اس مہنگائی میں
آٹا تو گیلا مت کر
میرے پتے دیکھ ذرا
دو اکے اور اک جوکر
اس کا ٹیڑھا اونٹ نہ دیکھ
اپنا الو سیدھا کر
بیوی اکیلی ڈرتی ہے
شام ہوئی اب چلیے گھر
علویؔ عادلؔ اور ظفرؔ
تینوں کے تینوں اندر
غزل
اس کی بات کا پاؤں نہ سر
محمد علوی