اس خزاں کی رت میں اپنا ساتھ اچھا رہ گیا
سب پرائے ہو گئے اک میں ہی اپنا رہ گیا
زندگی ہموار تھی تو ساتھ تھا انبوہ ایک
زندگی کے موڑ پر پہنچا تو تنہا رہ گیا
کل سجا تھا جن کے چہروں پر محبت کا نقاب
کتنی حیرت سے انہیں میں آج تکتا رہ گیا
ایک سایہ تھا چلا صبح ازل مجھ سے طویل
آفتوں کا آفتاب آیا تو چھوٹا رہ گیا
وہ زمانہ تھا کبھی کہ تھا ہجوم اک صبح و شام
یاد تھا سب کچھ ہمیں بس یاد اتنا رہ گیا
جو کسی کے جسم کا کل تک رہا تھا اک لباس
اب علیحدہ یوں ہوا کہ کوئی ننگا رہ گیا
ہر حسیں چہرے پہ جم کر رہ گئی موسم کی گرد
ہر حسیں چہرہ مرے البم کا دھندلا رہ گیا
میں بھلا کیسے کروں پابندئ اہل فریب
مصلحت میں ڈوب کر کیسے وہ سچا رہ گیا
جب ہوئی ہے غم کی یورش ہر طرف سے بے حساب
میں نے خوشیاں بانٹ دیں اور خود نہتا رہ گیا
ہر کوئی ترک تعلق پر مصر ہے اب خیالؔ
آ مرے دل تو بھی آ جا کس کا دھڑکا رہ گیا

غزل
اس خزاں کی رت میں اپنا ساتھ اچھا رہ گیا
مستحسن خیال