EN हिंदी
اس کا غم ہے کہ مجھے وہم ہوا ہے شاید | شیح شیری
is ka gham hai ki mujhe wahm hua hai shayad

غزل

اس کا غم ہے کہ مجھے وہم ہوا ہے شاید

سبحان اسد

;

اس کا غم ہے کہ مجھے وہم ہوا ہے شاید
کوئی پہلو میں مرے جاگ رہا ہے شاید

جاگتے جاگتے پچھلی کئی راتیں گزری
چاند ہونا مری قسمت میں لکھا ہے شاید

دوڑ جاؤں ہر اک آہٹ پہ کواڑوں کی طرف
اور پھر خود کو ہی سمجھاؤں ہوا ہے شاید

اس کی باتوں سے وہ اب پھول نہیں جھڑتے ہیں
اس کے ہونٹوں پہ ابھی میرا گلہ ہے شاید

اس کو کھولوں تو رگ دل کو کوئی ڈستا ہے
یاد کی گٹھری میں اک سانپ چھپا ہے شاید

مجھ کو ہر راہ اجالوں سے بھری ملتی ہے
یہ ان آنکھوں کے چراغوں کی دعا ہے شاید