اس کا غم ہے کہ مجھے وہم ہوا ہے شاید
کوئی پہلو میں مرے جاگ رہا ہے شاید
جاگتے جاگتے پچھلی کئی راتیں گزری
چاند ہونا مری قسمت میں لکھا ہے شاید
دوڑ جاؤں ہر اک آہٹ پہ کواڑوں کی طرف
اور پھر خود کو ہی سمجھاؤں ہوا ہے شاید
اس کی باتوں سے وہ اب پھول نہیں جھڑتے ہیں
اس کے ہونٹوں پہ ابھی میرا گلہ ہے شاید
اس کو کھولوں تو رگ دل کو کوئی ڈستا ہے
یاد کی گٹھری میں اک سانپ چھپا ہے شاید
مجھ کو ہر راہ اجالوں سے بھری ملتی ہے
یہ ان آنکھوں کے چراغوں کی دعا ہے شاید
غزل
اس کا غم ہے کہ مجھے وہم ہوا ہے شاید
سبحان اسد