اس عشق میں درکار کہانی ہے ضروری
تم زخم عطا کر دو نشانی ہے ضروری
اک بات ہے جو تجھ کو بتانی ہے ضروری
پر ذہن میں میرے بھی تو آنی ہے ضروری
کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو اب راہ کا جنگل
لیکن مری منزل مجھے پانی ہے ضروری
خشکی پہ ہوا رہنے نہ دے گی کوئی منظر
آنکھیں ہیں مرے پاس تو پانی ہے ضروری
غزل
اس عشق میں درکار کہانی ہے ضروری
ارپت شرما ارپت