EN हिंदी
اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں | شیح شیری
is intishaar ka koi asar bhi hai ki nahin

غزل

اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں

خوشبیر سنگھ شادؔ

;

اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں
تجھے زوال کی اپنے خبر بھی ہے کہ نہیں

کہیں فریب نہ دیتی ہوں مل کے کچھ موجیں
جہاں تو ڈوب رہا ہے بھنور بھی ہے کہ نہیں

یقین کرنے سے پہلے پتہ لگا تو سہی
کہ تیرے دل کی صدا معتبر بھی ہے کہ نہیں

یہ روز اپنے تعاقب میں در بدر پھرنا
بتا مسافت ہستی سفر بھی ہے کہ نہیں

کبھی تو اپنے خزینے اچھال ساحل پر
کسی صدف میں یہ دیکھیں گہر بھی ہے کہ نہیں

میں جس کی شاخ پہ چھوڑ آیا آشیاں اپنا
یہ سوچتا ہوں کہ اب وہ شجر بھی ہے کہ نہیں

ہوا سے لے تو لیا ڈھیر سوکھے پتوں کا
نہ جانے راکھ میں میری شرر بھی ہے کہ نہیں

میں جس کے چاک پہ رکھا ہوں شادؔ ڈھلنے کو
مجھے تو شک ہے کہ وہ کوزہ گر بھی ہے کہ نہیں