اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں
تجھے زوال کی اپنے خبر بھی ہے کہ نہیں
کہیں فریب نہ دیتی ہوں مل کے کچھ موجیں
جہاں تو ڈوب رہا ہے بھنور بھی ہے کہ نہیں
یقین کرنے سے پہلے پتہ لگا تو سہی
کہ تیرے دل کی صدا معتبر بھی ہے کہ نہیں
یہ روز اپنے تعاقب میں در بدر پھرنا
بتا مسافت ہستی سفر بھی ہے کہ نہیں
کبھی تو اپنے خزینے اچھال ساحل پر
کسی صدف میں یہ دیکھیں گہر بھی ہے کہ نہیں
میں جس کی شاخ پہ چھوڑ آیا آشیاں اپنا
یہ سوچتا ہوں کہ اب وہ شجر بھی ہے کہ نہیں
ہوا سے لے تو لیا ڈھیر سوکھے پتوں کا
نہ جانے راکھ میں میری شرر بھی ہے کہ نہیں
میں جس کے چاک پہ رکھا ہوں شادؔ ڈھلنے کو
مجھے تو شک ہے کہ وہ کوزہ گر بھی ہے کہ نہیں
غزل
اس انتشار کا کوئی اثر بھی ہے کہ نہیں
خوشبیر سنگھ شادؔ