اس حقیقت کا حسیں خوابوں کو اندازہ نہیں
زندگی وہ گھر ہے جس میں کوئی دروازہ نہیں
شب کے کاسے میں تھا کتنے ماہتابوں کا لہو
صبح کے تارے کو شاید اس کا اندازہ نہیں
رنگ لائے گی کبھی تو میرے زخموں کی شفق
کیا ہوا روئے تمنا پر اگر غازہ نہیں
ایک آنسو ہوں خوشی کی آنکھ سے روٹھا ہوا
میں کسی کی منتشر پلکوں کا شیرازہ نہیں
کیوں بہار آتی نہیں دل کے خرابے کی طرف
کیا تری شاداب زلفوں کی ہوا تازہ نہیں
لکھ رہی ہے کیوں مری روحانیت آیات کفر
یہ کہیں دزدیدہ خوابوں کا تو خمیازہ نہیں
کس کو دیکھا بند دروازوں نے آنکھیں کھول کر
پریمؔ تجھ کو ان کی آمد کا بھی اندازہ نہیں
غزل
اس حقیقت کا حسیں خوابوں کو اندازہ نہیں
پریم واربرٹنی