EN हिंदी
اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے | شیح شیری
is haal mein jite ho to mar kyun nahin jate

غزل

اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے

حسین تاج رضوی

;

اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے
یوں ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے

کیسے ہیں یہ ارمان یہ کاوش یہ تگ و دو
منزل نہیں معلوم تو گھر کیوں نہیں جاتے

اشکوں کی طرح کیوں مری پلکوں پہ رکے ہو
خنجر کی طرح دل میں اتر کیوں نہیں جاتے

مانا کہ یہ سب زخم جگر تم نے دیئے ہیں
مرہم سے کسی اور کے بھر کیوں نہیں جاتے

آئینہ ہے ماحول ہے اسباب ہیں تم ہو
خاطر مری اک بار سنور کیوں نہیں جاتے

بے خود تھے کیا غیر سے وعدہ مجھے منظور
آیا ہے اگر ہوش مکر کیوں نہیں جاتے

اے تاجؔ امیدوں کے یہ موسم بھی عجب ہیں
ہر رت کی طرح یہ بھی گزر کیوں نہیں جاتے