اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے
یوں ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے
کیسے ہیں یہ ارمان یہ کاوش یہ تگ و دو
منزل نہیں معلوم تو گھر کیوں نہیں جاتے
اشکوں کی طرح کیوں مری پلکوں پہ رکے ہو
خنجر کی طرح دل میں اتر کیوں نہیں جاتے
مانا کہ یہ سب زخم جگر تم نے دیئے ہیں
مرہم سے کسی اور کے بھر کیوں نہیں جاتے
آئینہ ہے ماحول ہے اسباب ہیں تم ہو
خاطر مری اک بار سنور کیوں نہیں جاتے
بے خود تھے کیا غیر سے وعدہ مجھے منظور
آیا ہے اگر ہوش مکر کیوں نہیں جاتے
اے تاجؔ امیدوں کے یہ موسم بھی عجب ہیں
ہر رت کی طرح یہ بھی گزر کیوں نہیں جاتے

غزل
اس حال میں جیتے ہو تو مر کیوں نہیں جاتے
حسین تاج رضوی