EN हिंदी
اس حادثے کو دیکھ کے آنکھوں میں درد ہے | شیح شیری
is hadse ko dekh ke aankhon mein dard hai

غزل

اس حادثے کو دیکھ کے آنکھوں میں درد ہے

اظہر عنایتی

;

اس حادثے کو دیکھ کے آنکھوں میں درد ہے
اپنی جبیں پہ اپنے ہی قدموں کی گرد ہے

آ تھوڑی دیر بیٹھ کے باتیں کریں یہاں
تیرے تو یار لہجے میں اپنا سا درد ہے

کیا ہو گئیں نہ جانے تری گرم جوشیاں
موسم سے آج ہاتھ سوا تیرا سرد ہے

تاریخ بھی ہوں اتنے برس کی مورخو
چہرے پہ میرے جتنے برس کی یہ گرد ہے

اے رات تیرے چاند ستاروں میں وہ کہاں
بجھتے ہوئے چراغ کی لو میں جو درد ہے

اظہرؔ جو قتل ہو گیا وہ بھائی تھا مگر
قاتل بھی میرے اپنے قبیلے کا فرد ہے