اس حادثے کو دیکھ کے آنکھوں میں درد ہے
اپنی جبیں پہ اپنے ہی قدموں کی گرد ہے
آ تھوڑی دیر بیٹھ کے باتیں کریں یہاں
تیرے تو یار لہجے میں اپنا سا درد ہے
کیا ہو گئیں نہ جانے تری گرم جوشیاں
موسم سے آج ہاتھ سوا تیرا سرد ہے
تاریخ بھی ہوں اتنے برس کی مورخو
چہرے پہ میرے جتنے برس کی یہ گرد ہے
اے رات تیرے چاند ستاروں میں وہ کہاں
بجھتے ہوئے چراغ کی لو میں جو درد ہے
اظہرؔ جو قتل ہو گیا وہ بھائی تھا مگر
قاتل بھی میرے اپنے قبیلے کا فرد ہے

غزل
اس حادثے کو دیکھ کے آنکھوں میں درد ہے
اظہر عنایتی