اس گفتگو سے یوں تو کوئی مدعا نہیں
دل کے سوا حریف کوئی دوسرا نہیں
آنکھیں ترس گئیں تمہیں دیکھے ہوئے مگر
گھر قابل ضیافت مہماں رہا نہیں
ناقوس کوئی بحر کی تہہ میں ہے نعرہ زن
ساحل کی یہ صدا تو کوئی ناخدا نہیں
مانا کہ زندگی میں ہے ضد کا بھی ایک مقام
تم آدمی ہو بات تو سن لو خدا نہیں
لطف سخن یہی تھا کہ خود تم بھی کچھ کہو
یہ وہم ہے کہ اب کوئی گوش وفا نہیں
میری وفا برائے وفا اتفاق تھی
میرے سوا کسی پہ یہ افسوں چلا نہیں
اس کی نظر تغیر حالات پر گئی
کوئی مزاج دان محبت ملا نہیں
غزل
اس گفتگو سے یوں تو کوئی مدعا نہیں
عزیز حامد مدنی