EN हिंदी
اس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا | شیح شیری
is ghani shab ka sawera nahin aane wala

غزل

اس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا

سلیمان خمار

;

اس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا
اب کہیں سے بھی اجالا نہیں آنے والا

جبرئیل اب نہیں آئیں گے زمیں پر ہرگز
پھر سے آیات کا تحفہ نہیں آنے والا

ہو گئے دفن شب و روز پرانے کب کے
لوٹ کر پھر وہ زمانہ نہیں آنے والا

پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں
دھوپ تو آئے گی سایہ نہیں آنے والا

یہ بھی سچ ہے کہ اجل بن کے کھڑے ہیں امراض
یہ بھی طے ہے کہ مسیحا نہیں آنے والا

ہم کو سہنا ہے اکیلے ہی ہر اک درد کا بوجھ
خیر خواہوں کا دلاسہ نہیں آنے والا

میرے افکار کے سوتے نہیں تھمنے والے
میری سوچوں پہ بڑھاپا نہیں آنے والا

نئے لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بھی تو ہو
صرف الفاظ سے لہجہ نہیں آنے والا

جھوٹ بے پاؤں بھی دوڑے گا بہت تیز خمارؔ
لب پہ سچائی کا چرچا نہیں آنے والا