اس ایک سوچ میں گم ہیں خیال جتنے ہیں
جواب اتنے نہیں ہیں سوال جتنے ہیں
جو سازشوں کو کچلنے کی بات کرتا ہے
بنے ہوئے ہیں اسی کے یہ جال جتنے ہیں
اسی کی دین ہیں یہ سب اسی کے تحفے ہیں
ہماری فکر کے شیشے میں بال جتنے ہیں
ہمیں نے چبھتے مسائل کی میزبانی کی
ہمیں نے پال رکھے ہیں وبال جتنے ہیں
تمہاری بزم ہے آباد خوش مزاجوں سے
ہمارے ساتھ ہیں آشفتہ حال جتنے ہیں
ہمارے عہد میں لفظوں نے کھو دیا مفہوم
عروج بن کے کھڑے ہیں زوال جتنے ہیں
یقیں نہیں ہے تحفظ کا اب کسی کو خمارؔ
ہر ایک ذہن میں ہیں احتمال جتنے ہیں
غزل
اس ایک سوچ میں گم ہیں خیال جتنے ہیں
سلیمان خمار