اس ایک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
جو دیکھتا ہوں میں وہ بھولتا نہیں
کسی منڈیر پر کوئی دیا جلا
پھر اس کے بعد کیا ہوا پتا نہیں
میں آ رہا تھا راستے میں پھول تھے
میں جا رہا ہوں کوئی روکتا نہیں
تری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
اس اژدھے کی آنکھ پوچھتی رہی
کسی کو خوف آ رہا ہے یا نہیں
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بے خبر
میں بجھ چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں
یہ عشق بھی عجب کہ ایک شخص سے
مجھے لگا کہ ہو گیا ہوا نہیں
غزل
اس ایک ڈر سے خواب دیکھتا نہیں
تہذیب حافی