اس ایک ڈر میں کہ آخر کو ٹوٹ جائے گا
یہ آئنہ مرے ہاتھوں سے چھوٹ جائے گا
میں توڑ سکتا ہوں پل میں سکوت سنگ نسب
مگر یہ دھیان کہ اک شخص روٹھ جائے گا
ضرور بجھ کے رہے گا رخ سفر طلبی
یہ آبلہ ہے تو اک روز پھوٹ جائے گا
یقین تھا کہ کوئی سانحہ گزرنا ہے
گماں نہ تھا کہ ترا ساتھ چھوٹ جائے گا
ہم ایک عہد ابد یاب کا کھرا سچ ہیں
ہمارے ساتھ ہمارا یہ جھوٹ جائے گا

غزل
اس ایک ڈر میں کہ آخر کو ٹوٹ جائے گا
خمار میرزادہ