EN हिंदी
اس ایک ڈر میں کہ آخر کو ٹوٹ جائے گا | شیح شیری
is ek Dar mein ki aaKHir ko TuT jaega

غزل

اس ایک ڈر میں کہ آخر کو ٹوٹ جائے گا

خمار میرزادہ

;

اس ایک ڈر میں کہ آخر کو ٹوٹ جائے گا
یہ آئنہ مرے ہاتھوں سے چھوٹ جائے گا

میں توڑ سکتا ہوں پل میں سکوت سنگ نسب
مگر یہ دھیان کہ اک شخص روٹھ جائے گا

ضرور بجھ کے رہے گا رخ سفر طلبی
یہ آبلہ ہے تو اک روز پھوٹ جائے گا

یقین تھا کہ کوئی سانحہ گزرنا ہے
گماں نہ تھا کہ ترا ساتھ چھوٹ جائے گا

ہم ایک عہد ابد یاب کا کھرا سچ ہیں
ہمارے ساتھ ہمارا یہ جھوٹ جائے گا