اس دل کو کیا کہیں کہ جدھر تھا ادھر نہ تھا
تھا جس پہ اعتبار وہی معتبر نہ تھا
تھے راہ میں ہزار کوئی راہ پر نہ تھا
ہم راہ تو بہت تھے کوئی ہم سفر نہ تھا
اہل ہوس تمام تھے آغوش وا کیے
پر اپنی طرح ایک بھی سینہ سپر نہ تھا
پرواز تھی فضائے زمان و مکاں سے دور
میں بے نیاز دہر تھا بے بال و پر نہ تھا
ہر سو بسی ہوئی تھی مگر ڈھونڈتے کہاں
خوشبو کا کوئی رنگ نہ تھا کوئی گھر نہ تھا
اپنی ہی کچھ کمی تھی جو ناکام ہم ہوئے
دل کار بند شوق تو تھا کار گر نہ تھا
باقرؔ ہوائے شوق اڑائے پھری مجھے
میں خانماں خراب سہی در بدر نہ تھا
غزل
اس دل کو کیا کہیں کہ جدھر تھا ادھر نہ تھا
سجاد باقر رضوی