اس دور سے خلوص محبت وفا نہ مانگ
صحرا سے کوئی سایہ کوئی آسرا نہ مانگ
پتوں کے قہقہوں میں صدائے بکا نہ ڈھونڈ
جنگل میں رہ کے شہر کی آب و ہوا نہ مانگ
سمجھوتہ کر کے وقت سے چپ چاپ بیٹھ جا
قاتل سے زندگی کے ابھی خوں بہا نہ مانگ
اپنے خدا سے سلسلۂ گفتگو نہ توڑ
ہو جائے جو قبول تو ایسی دعا نہ مانگ
جا اپنی لاش کو کہیں جنگل میں پھینک آ
اس شہر کے امیر سے داد وفا نہ مانگ
خسروؔ سفیر وقت سے غم کا مزاج پوچھ
ماضی کی عظمتوں کا خوشی کا پتہ نہ مانگ

غزل
اس دور سے خلوص محبت وفا نہ مانگ
امیر احمد خسرو