اس دور کے اثر کا جو پوچھو بیاں نہیں
ہے کون سی زمیں کہ جہاں آسماں نہیں
اس درجہ دلبروں سے کوئی رسم دلبری
دل ہاتھ پر لیے ہوں کوئی دل ستاں نہیں
افسردہ دل تھا اب تو ہوا غم سے مردہ دل
جیتا ہوں دیکھنے میں ولے مجھ میں جاں نہیں
آداب صحبتوں کا کوئی ہم سے سیکھ لے
پر کیا کروں کہ طالب صحبت یہاں نہیں
دل جل کے بجھ گیا ہے کسی نے خبر نہ لی
ہم سوختہ دلوں کا کوئی قدرداں نہیں
ہے کل کی بات سب کے دلوں میں عزیز تھا
پر ان دنوں تو ایک بھی دل مہرباں نہیں
ایسی ہوا بہی کہ ہے چاروں طرف فساد
جز سایۂ خدا کہیں دارالاماں نہیں
عالم کی ہے گی نرخ الٰہی سے زندگی
تس پر بھی دیکھتا ہوں کہ بہتوں کو ناں نہیں
حاتمؔ خموش لطف سخن کچھ نہیں رہا
بکتا عبث پھرے ہے کوئی نکتہ داں نہیں
غزل
اس دور کے اثر کا جو پوچھو بیاں نہیں
شیخ ظہور الدین حاتم