اس دور کا ہر آدمی عیار ہو گیا
اپنا ضمیر بیچ کے سردار ہو گیا
خدمت کی فکر ہے نہ کسی کا ذرا خیال
خادم ہماری قوم کا غدار ہو گیا
سمجھو کہ خوف اس کو بھی چنگاریوں کا ہے
بارود کا جو ملک خریدار ہو گیا
دن رات لٹ رہی ہیں غریبوں کی بستیاں
سرگرم جب سے لوٹ کا بازار ہو گیا
سر چڑھ کے بولتا ہے ہر اک آدمی کے وہ
قبضے میں جس کے آج کا اخبار ہو گیا
اتنی سی بات پر میں اذیت نصیب ہوں
سچائی کا زبان سے اظہار ہو گیا
رہبر لگے ہیں کرنے یہاں رہبری کا کام
راہے ہر ایک راستہ دشوار ہو گیا
غزل
اس دور کا ہر آدمی عیار ہو گیا
منظور علی راہی