اس دور بے دلی میں کوئی بات کیسے ہو
چاہیں بھی ہم تو خود سے ملاقات کیسے ہو
کاٹے نہیں گئے تو مرے ہاتھ کیسے ہو
میرے نہیں ہو تم تو مرے ساتھ کیسے ہو
پتھر برس رہے ہیں تو مجھ پر بھی آئیں گے
میں چپ رہوں مگر بسر اوقات کیسے ہو
کچھ دیکھتے نہیں ہو تو بینا ہو کس لیے
ٹھنڈے پڑے ہوئے ہو تو جذبات کیسے ہو
تم قیدیوں کی طرح مرے دل میں ہو اسیر
پھیلے نہیں جہاں میں خیالات کیسے ہو
اس روشنی میں چہرہ چھپاؤ گے کب تلک
تم مانگتے ہو رات مگر رات کیسے ہو
سورج نہ چاہتا ہو تو دن کس طرح ڈھلے
بادل ہی روٹھ جائیں تو برسات کیسے ہو
وہ چاہتے ہیں ان کے لیے میں دعا کروں
شامل اس آرزو میں مری ذات کیسے ہو
بندے کا اور خدا کا تعلق ہی مٹ چکا
پتھر ہوئی زبان مناجات کیسے ہو
ایسا کوئی جو میری زباں بھی سمجھ سکے
تم اجنبی ہو تم سے مری بات کیسے ہو
میں اپنے دشمنوں کو بھی پہچانتا نہیں
شہزادؔ دوستوں سے ملاقات کیسے ہو
غزل
اس دور بے دلی میں کوئی بات کیسے ہو
شہزاد احمد