اس دور عافیت میں یہ کیا ہو گیا ہمیں
پتہ سمجھ کے لے اڑی وحشی ہوا ہمیں
پتھر بنے ہیں عجز بیانوں کے سامنے
تخلیق فن کا خوب ملا ہے صلا ہمیں
ہم کو طلوع صبح بہاراں کی تھی تلاش
اس جرم کی سزا ہے یہ زنجیر پا ہمیں
یہ دور تیز گام بھی ہے ان سے بے خبر
وہ منزلیں جو دے گئیں اپنا پتہ ہمیں
راہ طلب سمٹ کے قدم چومنے لگی
جب بھی کوئی حریف سفر مل گیا ہمیں
ظلمت کا دور کچھ بھی سہی ستر پوش تھا
کب روشنی نے جیب و گریباں دیا ہمیں
پس منظر بہار سے ہم بے خبر نہ تھے
راس آ سکی نہ خندۂ گل کی صدا ہمیں
ہم کو تو نذر سیل ہوئے عمر ہو گئی
کشتی میں ڈھونڈھتا ہے مگر ناخدا ہمیں
غزل
اس دور عافیت میں یہ کیا ہو گیا ہمیں
ظہیر کاشمیری