اس دشت کی وسعت میں سمٹ کر نہیں دیکھا
اک عمر چلے اور پلٹ کر نہیں دیکھا
ہم اہل نظر ہو کے بھی کب اہل نظر تھے
حالات کو خود سے کبھی ہٹ کر نہیں دیکھا
احباب کی بانہوں کا نشہ اور ہے لیکن
تو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا
اک درد کے دھاگے میں پروئے ہیں ازل سے
اس رشتۂ موہوم سے کٹ کر نہیں دیکھا
یا رات کے دامن میں ستارے ہی بہت تھے
یا ہم نے چراغوں کو الٹ کر نہیں دیکھا
کیسے نظر آتے مری آنکھوں کے جزیرے
اس بحر طلب نے کبھی گھٹ کر نہیں دیکھا
شہزادؔ قمر دیکھ رہا ہے وہی دنیا
خانوں میں جہاں زیست نے بٹ کر نہیں دیکھا
غزل
اس دشت کی وسعت میں سمٹ کر نہیں دیکھا
شہزاد قمر