اس دشت بے پناہ کی حد پر بھی خوش نہیں
میں اپنی خواہشوں سے بچھڑ کر بھی خوش نہیں
اک سر خوشی محیط ہے چاروں طرف مگر
بستی میں کوئی شخص کوئی گھر بھی خوش نہیں
کتنے ہیں لوگ خود کو جو کھو کر اداس ہیں
اور کتنے اپنے آپ کو پا کر بھی خوش نہیں
یہ کیفیت غلام نہیں قید و بند کی
اندر جو اپنے خوش نہیں باہر بھی خوش نہیں
ساحل کی بھیگی ریت پہ چلتا برہنہ پا
میں ہوں اداس اور سمندر بھی خوش نہیں
غزل
اس دشت بے پناہ کی حد پر بھی خوش نہیں
ذیشان ساحل