اس درجہ میری ذات سے اس کو حسد ہوا
جو بھی سوال میں نے کیا مسترد ہوا
اس نے ہی دی سزا مجھے صحرا کی دھوپ میں
میرے بدن کی چھاؤں سے جو نا بلد ہوا
ایسی چلی ہوا کہ ہر اک شاخ جل گئی
وہ پیڑ جو ہرا تھا غموں کی سند ہوا
سوچیں ہیں خواب خواب تو تحریر آب آب
ہم کیا کہیں کہ کون یہاں نیک و بد ہوا
اس کی ہی آرزو میں یہ چہرے اداس ہیں
وہ آئنہ کہ جس کا تقاضا اشد ہوا
جس نے صداقتوں کو لہو سے کیا رقم
اس شخص کا ہر ایک سخن مستند ہوا
میرا ستارا اس کے ستارے سے یوں ملا
میرا اور اس کا نام حسنؔ ہم عدد ہوا
غزل
اس درجہ میری ذات سے اس کو حسد ہوا
حسن رضوی