اس بزم تصور میں بس یار کی باتیں ہیں
مژگاں کے قصیدے ہیں رخسار کی باتیں ہیں
ہونٹوں کے دریچوں پر دل دار کی باتیں ہیں
پردہ بھی ہے پردے میں دیدار کی باتیں ہیں
اظہار محبت کا انداز نرالا ہے
انکار کے لہجے میں اقرار کی باتیں ہیں
دن رات تصور میں تصویر تمہاری ہے
اس پار کی دنیا میں اس پار کی باتیں ہیں
یوں کیف نمایاں ہے غزلوں میں مری جیسے
آفاق کی وسعت میں فن کار کی باتیں ہیں
آنکھوں کو مری پڑھ کر ساقی نے کہا ہنس کر
ایقان ذرا مشکل مے خوار کی باتیں ہیں
یہ عشق تمہیں ذاکرؔ کس موڑ پہ لے آیا
زنجیر ہے پیروں میں جھنکار کی باتیں ہیں
غزل
اس بزم تصور میں بس یار کی باتیں ہیں
ذاکر خان ذاکر