اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے
ان کی سہیلیوں کے بھی آنچل بھگو گئے
چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر
جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے
سب دیکھ کر گزر گئے اک پل میں اور ہم
دیوار پر بنے ہوئے منظر میں کھو گئے
مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات
اے رات اب تو گھر کے در و بام سو گئے
کس کس سے اور جانے محبت جتاتے ہم
اچھا ہوا کہ بال یہ چاندی کے ہو گئے
اتنی لہولہان تو پہلے فضا نہ تھی
شاید ہماری آنکھوں میں اب زخم ہو گئے
اخلاص کا مظاہرہ کرنے جو آئے تھے
اظہرؔ تمام ذہن میں کانٹے چبھو گئے
غزل
اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے
اظہر عنایتی