EN हिंदी
اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے | شیح شیری
is bar un se mil ke juda hum jo ho gae

غزل

اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے

اظہر عنایتی

;

اس بار ان سے مل کے جدا ہم جو ہو گئے
ان کی سہیلیوں کے بھی آنچل بھگو گئے

چوراہوں کا تو حسن بڑھا شہر کے مگر
جو لوگ نامور تھے وہ پتھر کے ہو گئے

سب دیکھ کر گزر گئے اک پل میں اور ہم
دیوار پر بنے ہوئے منظر میں کھو گئے

مجھ کو بھی جاگنے کی اذیت سے دے نجات
اے رات اب تو گھر کے در و بام سو گئے

کس کس سے اور جانے محبت جتاتے ہم
اچھا ہوا کہ بال یہ چاندی کے ہو گئے

اتنی لہولہان تو پہلے فضا نہ تھی
شاید ہماری آنکھوں میں اب زخم ہو گئے

اخلاص کا مظاہرہ کرنے جو آئے تھے
اظہرؔ تمام ذہن میں کانٹے چبھو گئے