EN हिंदी
اس بار ملے ہیں غم کچھ اور طرح سے بھی | شیح شیری
is bar mile hain gham kuchh aur tarah se bhi

غزل

اس بار ملے ہیں غم کچھ اور طرح سے بھی

ہستی مل ہستی

;

اس بار ملے ہیں غم کچھ اور طرح سے بھی
آنکھیں ہیں ہماری نم کچھ اور طرح سے بھی

شعلہ بھی نہیں اٹھتا کاجل بھی نہیں بنتا
جلتا ہے کسی کا غم کچھ اور طرح سے بھی

ہر شاخ سلگتی ہے ہر پھول دہکتا ہے
گرتی ہے کبھی شبنم کچھ اور طرح سے بھی

منزل نے دیئے طعنے رستے بھی ہنسے لیکن
چلتے رہے اکثر ہم کچھ اور طرح سے بھی

دامن کہیں پھیلا تو محسوس ہوا یارو
قد ہوتا ہے اپنا کم کچھ اور طرح سے بھی

اس نے ہی نہیں دیکھا یہ بات الگ ورنہ
اس بار سجے تھے ہم کچھ اور طرح سے بھی