اس بار ملے ہیں غم کچھ اور طرح سے بھی
آنکھیں ہیں ہماری نم کچھ اور طرح سے بھی
شعلہ بھی نہیں اٹھتا کاجل بھی نہیں بنتا
جلتا ہے کسی کا غم کچھ اور طرح سے بھی
ہر شاخ سلگتی ہے ہر پھول دہکتا ہے
گرتی ہے کبھی شبنم کچھ اور طرح سے بھی
منزل نے دیئے طعنے رستے بھی ہنسے لیکن
چلتے رہے اکثر ہم کچھ اور طرح سے بھی
دامن کہیں پھیلا تو محسوس ہوا یارو
قد ہوتا ہے اپنا کم کچھ اور طرح سے بھی
اس نے ہی نہیں دیکھا یہ بات الگ ورنہ
اس بار سجے تھے ہم کچھ اور طرح سے بھی
غزل
اس بار ملے ہیں غم کچھ اور طرح سے بھی
ہستی مل ہستی