EN हिंदी
اس بار ہواؤں نے جو بیداد گری کی | شیح شیری
is bar hawaon ne jo bedad-gari ki

غزل

اس بار ہواؤں نے جو بیداد گری کی

عزیز نبیل

;

اس بار ہواؤں نے جو بیداد گری کی
پھر میرے چراغوں نے بھی شوریدہ سری کی

میں نے کسی ہنستے ہوئے لمحے کی طلب میں
اس شہر دل آویز میں بس دربدری کی

کچھ اور وسیلہ مرے اظہار کو کم تھا
سو میں نے مری جان سدا شعر گری کی

اے عہد رواں میں ترا مہمان ہوا تھا
لیکن ترے لوگوں نے بڑی بے خبری کی

حالانکہ کئی لوگ ہیں ناراض بھی مجھ سے
جو بات بھی کی میں نے بہر حال کھری کی

پڑھ لیتی ہیں لفظوں کا تنفس مری سوچیں
کچھ داد تو دی جائے مری دیدہ وری کی

میں وہ کہ ہوں صدیوں کی مسافت کا مسافر
ہر لمحے کی آہٹ نے مری ہم سفری کی