ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں
تمہارا نام ہر اک پیڑ پر لکھوں گا میں
ہر ایک پیڑ پہ چڑھ کے تمہیں پکاروں گا
ہر ایک پیڑ کے نیچے تمہیں ملوں گا میں
ہر ایک پیڑ کوئی داستاں سنائے گا
سمجھ نہ پاؤں گا لیکن سنا کروں گا میں
تمام رات بہاروں کے خواب دیکھوں گا
گرے پڑے ہوئے پتوں پہ سو رہوں گا میں
اندھیرا ہونے سے پہلے پرندے آئیں گے
اجالا ہونے سے پہلے ہی جاگ اٹھوں گا میں
تمہیں یقین نہ آئے تو کیا ہوا علویؔ
مجھے یقین ہے ایسے بھی جی سکوں گا میں
غزل
ارادہ ہے کسی جنگل میں جا رہوں گا میں
محمد علوی