EN हिंदी
انتظار دید میں یوں آنکھ پتھرائی کہ بس | شیح شیری
intizar-e-did mein yun aankh pathrai ki bas

غزل

انتظار دید میں یوں آنکھ پتھرائی کہ بس

غواص قریشی

;

انتظار دید میں یوں آنکھ پتھرائی کہ بس
مرتے مرتے وہ ہوئی عالم میں رسوائی کہ بس

دیکھ کر شبنم کی حالت ہنس پڑی نو رس‌‌ کلی
دو گھڑی پتوں پہ رہ کر اتنا اترائی کہ بس

دل کی دھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آ گئے
اک ذرا سی بات پر اتنی ہنسی آئی کہ بس

موت کو بھی مرنے والے پر ترس آ ہی گیا
اس طرح چڑھتی جوانی میں قضا آئی کہ بس

بات کیسی اب تو ہونٹوں پر ہے آہوں کا ہجوم
چوٹ کھانے پر بھی ایسی چوٹ پر کھائی کہ بس

توبہ کرنے کو تو کر لی حضرت غواصؔ نے
یک بیک گردوں پہ وہ کالی گھٹا چھائی کہ بس