EN हिंदी
انسان پہ کیا گزر رہی ہے | شیح شیری
insan pe kya guzar rahi hai

غزل

انسان پہ کیا گزر رہی ہے

محشر بدایونی

;

انسان پہ کیا گزر رہی ہے
انسانیت آہیں بھر رہی ہے

اب کیا ہے دفاع ظلم کے پاس
تاریخ سوال کر رہی ہے

دیواریں تو ساری ہیں ادھر کی
اور چھاؤں ادھر اتر رہی ہے

گم اپنی ہوا میں ہیں مچھیرے
موج اپنی جگہ بپھر رہی ہے

آسودۂ غم ہے کوئی رت ہو
وہ شاخ جو بے ثمر رہی ہے

اپنی ہی خبر رہی ہے ان کو
اور اپنی بھی کیا خبر رہی ہے

خود کوزے بنائے خود بکھر جائے
یہ قسمت کوزہ گر رہی ہے