انسان پہ کیا گزر رہی ہے
انسانیت آہیں بھر رہی ہے
اب کیا ہے دفاع ظلم کے پاس
تاریخ سوال کر رہی ہے
دیواریں تو ساری ہیں ادھر کی
اور چھاؤں ادھر اتر رہی ہے
گم اپنی ہوا میں ہیں مچھیرے
موج اپنی جگہ بپھر رہی ہے
آسودۂ غم ہے کوئی رت ہو
وہ شاخ جو بے ثمر رہی ہے
اپنی ہی خبر رہی ہے ان کو
اور اپنی بھی کیا خبر رہی ہے
خود کوزے بنائے خود بکھر جائے
یہ قسمت کوزہ گر رہی ہے
غزل
انسان پہ کیا گزر رہی ہے
محشر بدایونی