انساں ہوس کے روگ کا مارا ہے ان دنوں
بے لوث ربط کس کو گوارا ہے ان دنوں
دل اب مرا دماغ کے تابع ہے اس لئے
جینا ترے بغیر گوارا ہے ان دنوں
محرومیوں کو مان کے تقدیر کا لکھا
دل سے غموں کا بوجھ اتارا ہے ان دنوں
موزوں ہے وقت آمد طوفان کے لئے
کشتی سے میری دور کنارا ہے ان دنوں
کوچے میں زندگی کے تلاش سکون میں
اک یگ بھٹک کے میں نے گزارا ہے ان دنوں

غزل
انساں ہوس کے روگ کا مارا ہے ان دنوں
سوز نجیب آبادی