EN हिंदी
انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا | شیح شیری
insaf ki taraazu mein taula ayan hua

غزل

انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا

حیدر علی آتش

;

انصاف کی ترازو میں تولا عیاں ہوا
یوسف سے تیرے حسن کا پلہ گراں ہوا

روئے زمیں پہ ایسا میں بسمل تپاں ہوا
اڑ کر مرا لہو شفق آسماں ہوا

اس برق وش کا عشق نہانی عیاں ہوا
ابر سیاہ آہوں کا میرے دھواں ہوا

پیری میں مجھ کو عشق حسین جواں ہوا
بار دگر کبادے میں زور کماں ہوا

اہل زمیں سے صاف کہاں آسماں ہوا
کس روز برج ماہ میں فرش کتاں ہوا

معدوم داغ عشق کا دل سے نشاں ہوا
افسوس بے چراغ ہمارا مکاں ہوا

دو ٹکڑے ایک وار میں خود حباب ہے
گرداب موج تیغ کو سنگ فساں ہوا

دیکھا جو میں نے اس کو سمندر کی آنکھ سے
گل زار آگ ہو گئی سنبل دھواں ہوا

ملتا نہیں دماغ ہی گیسوئے یار کا
کچھ ان دنوں میں مشک کا سوداگراں ہوا

خوش چشموں کے فراق میں کھائے یہ پیچ و تاب
شاخ غزال اپنا ہر اک استخواں ہوا

سختیٔ راہ عشق سے واقف ہوئے نہ پاؤں
جوش جنوں مرے لیے تخت رواں ہوا

انبوہ عاشقاں سے ہوا حسن کو غرور
کثرت سے مشتری کی یہ سوداگراں ہوا

پیوند خاک ہو گئے اک بت کی راہ میں
پتھر ہماری قبر کا سنگ نشاں ہوا

پھینکا گیا نہ پیر فلک نعل کی طرح
کوئی نہ طفل اشک ہمارا جواں ہوا

تو دیکھنے گیا لب دریا جو چاندنی
استادہ تجھ کو دیکھ کے آب رواں ہوا

انساں کو چاہئے کہ نہ ہو ناگوار طبع
سمجھے سبک اسے جو کسی پر گراں ہوا

اس گل سے عرض حال کی حسرت ہی رہ گئی
کانٹے پڑے زباں میں جو میل بیاں ہوا

اللہ کے کرم سے بتوں کو کیا مطیع
زیر نگیں قلمرو ہندوستاں ہوا

انصاف میں نے عالم اسباب میں کیا
بنوائی چاندنی جو میسر کتاں ہوا

گردش نے اس کی سرمہ کئے اپنے استخواں
چکی ہمارے پیسنے کو آسماں ہوا

قاتل کی تیغ سے رہ ملک عدم ملی
آہن ہمارے واسطے سنگ نشاں ہوا

فکر بلند نے مری ایسا کیا بلند
آتشؔ زمین شعر سے پست آسماں ہوا